سطحِ دریا پہ تہہ آب کو پینے کی ہوس
بلبلے کو بھی ہے گرداب کو پینے کی ہوس
ہم کو تالاب کا تالاب ملا، پی ڈالا
پھر بھی باقی رہی مہتاب کو پینے کی ہوس
رنگ آنکھوں میں بھی لاتا ہے مگر اف تیری
جگرِ سوختہ خونناب کو پینے کی ہوس
دیکھ لے آئی ہے صحرائے شبِ ظلمت میں
چشمِ دنیا یہ تری خواب کو پینے کی ہوس
ہم کو شاعر نہ کہو یار منیب الرحمن
کبھی ہوسکتی ہے غرقاب کو پینے کی ہوس
جواب دیں